اسلام آباد ( رؤف کلاسرا) عمران خان اور ان کی پارٹی نے منگل کو اسلام آباد میں اپنی پارٹی کے اجلاس کے بعد نواز شریف کی طرف سے حکومت کے خلاف مشترکہ لانگ مارچ کی پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے جو اپنی جوابی شرائط رکھی ہیں وہ سیاسی مبصرین کے خیال میں اس بات کی غماز ہیں کہ عمران خان کو بھی سیاسی چالیں چلنے کا ڈھنگ آگیا ہے اور انہیں بھی یہ پتہ چلنا شروع ہو گیا ہے کہ سیاست میں بغیر لاٹھی توڑے سانپ کیسے مارے جا سکتے ہیں۔ عمران نے نواز کے متوازی لانگ مارچ کا چھ مئی کو اعلان کر کے اپنے اوپر ایک اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ وہ بھی لوگوں کو پیپلز پارٹی، نواز لیگ اور جماعت اسلامی کے بعد سڑکوں پر لانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اسے اب اسلام آباد پر زرداری گیلانی کی ’کرپٹ اور سپریم کورٹ کا حکم نہ ماننے والی حکومت‘ پر چڑھائی کرنے کے لیے کسی سیاسی پارٹی کی بیساکھیوں کی ضرورت نہیں ہے۔
جب سوموار کو نواز شریف نے پنجاب ہاؤس میں اپنی پارٹی کے لیڈروں کے ساتھ کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرانے کے لیے لاہور سے لانگ مارچ شروع کریں گے اور انہوں نے عمران خان سمیت دیگر پارٹیوں کو بھی شمولیت کی دعوت دی، تو اکثر کا خیال تھا کہ عمران خان شاید اس پیشکش کو ایک لاابالی کھلاڑی کی طرح یونہی مسترد کر ے گا کیونکہ یہ عمران کے وارے میں نہیں کہ وہ نواز شریف کے ساتھ مل کر یہ مارچ کرے۔ تاہم عمران نے ایک سمجھدار سیاستدان کی طرح کھل کر انکار بھی نہیں کیا۔ الٹا عمران نے نہ صرف چھ مئی سے اپنے لانگ مارچ کا اعلان کر دیا بلکہ اس نے نواز لیگ کو ایسی شرائط پر تعاون کی پیشکش کی ہے جس پر عمل تو دور کی بات ہے، نواز شریف کو سوچتے ہوئے بھی دانتوں تک پسینہ آجائے۔
منگل کو اسلام آباد میں ہونے والے پارٹی کے اجلاس میں شریک ہونیو الے تحریک انصاف کے ایک راہمناء نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر انکشاف کیا کہ عمران اس موقع پر اپنے نوجوان ووٹرز اور حمایتیوں کو کنفیوز نہیں کرے گا کہ اس کا اصلی سیاسی دشمن کون ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے شانہ بشانہ لاہور سے اسلام آباد پر چڑھائی کا مقصد یہ ہوتا کہ لوگوں کو گمان گزرتا کہ عمران اور نواز نے صلح کر لی ہے اور اب دونوں کا حدف ایک ہی ہے جس کا نام پیپلز پارٹی ہے۔ نواز شریف کے حامی اخبار نویس اور کالم نگار اس پر مزید تڑکا لگاتے کہ عمران اور نواز ایک ٹرک پر کتنے اچھے لگ رہے ہیں اور اللہ ان کو دشمنوں کی نظر بد سے بچائے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ ان کے خیال میں اگر عمران اور نواز ایک ٹرک پر سوار ہیں اور پاکستانی ٹی وی میٖڈیا ان کے فوٹو براہ راست پوری قوم کو تین دن تک لانگ مارچ کے دوران دکھاتا رہے تو پھر تحریک انصاف کا کیا امیچ بچ جائے گا جس کی سیاسی ساکھ ابھی نئی نئی بن رہی ہے۔
اس راہنماء نے الٹا سوال کیا کہ عمران کو نواز کے ساتھ ٹر ک پر سوار دیکھ کر عمران کو وہ لوگ کیوں ووٹ دیں گے جو اسے نواز اور زرداری کا نعم البعدل سمجھتے ہیں۔ بہت سارے لوگ یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ وہ پھر عمران کو ووٹ دے کر کیوں نواز لیگ کی سیاسی قوت کو کمزور کریں اور پییپلز پارٹی کے خلاف ووٹ کو تقسیم کر کے سارا فائدہ پیپلز پارٹی کو دیا جائے۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ لوگ جو عمران خان سے تو محبت کرتے ہیں لیکن وہ پیپلز پارٹی سے بھی نفرت کرتے ہیں، وہ مشترکہ لانگ مارچ کی صورت میں عمران کی بجائے نواز لیگ کو اہمیت دیں گے۔ اس وقت عمران کو اپنے ووٹرز کو کنفوز نہیں کرنا چاہیے اور اسے نواز لیگ سے دور ہی رہنا چاہیے اور یہی فیصلہ منگل کے روز پارٹی کی سینر قیادت نے کیا ہے۔
بہت سارے لوگوں کے خیال میں عمران کا یہ میچور فیصلہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ نئے سیاسی لوگ جو اس کی پارٹی میں شامل ہوئے ہیں وہ اب اس کو درست مشورہ دے رہے ہیں۔ یا اس سے بھی بڑی خبر یہ ہے کہ عمران نے ان کے مشوروں کو سننا اور ان پر عمل کرنا بھی شروع کر دیا ہے لہذا عمران کا کہنا ہے کہ پہلے ن لیگ پنجاب حکومت چھوڑے اور پھر قومی اسمبلی اور سینٹ سے استعفیٰ دے ایک ایسا جال ہے جس میں نواز لیگ پھنس گئی ہے ۔ اب عمران کو یہ طعنہ نہیں دیا جا سکتا کہ وہ سولو فلائٹ کر رہا ہے اور دوسری پارٹیوں کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں ہے۔ عمران نے ناں بھی نہیں کی اور ہاں بھی نہیں کی۔
عمران نے اونٹ کی قیمت تو ایک روپیہ لگائی ہے لیکن اس کے گلے میں ایسی کالی بلی باندھ دی ہے جس کی قیمت ادا کرنا نواز شریف جیسے ارب پتی کے لیے بھی ناممکن ہے جن کے خلاف رحمن ملک نے اپنی پوٹلی سے ایک ایک کر کے بنکوں کی لٹ مار کی کہانیاں سننانا شروع کر دی ہیں۔ شکر کرے نواز لیگ کہ یہ سچی کہانیاں رحمن ملک سنا رہا ہے جس کی بات پر کوئی اعتبار نہیں کرتا وگرنہ یہ کہانیاں مستند بھی ہیں اور اس کے دستاویزی ثبوت بھی پکے ہیں۔ عمران نے شاید پندرہ برس میں پہلی بار کوئی سیاسی کھیل درست کھلینے کی کوشش کی ہے اور ایسی شرائط رکھ دی ہیں جو مناسب بھی لگتی ہیں لیکن نواز لیگ کے لیے قابل قبول نہیں ہوں گی۔
نواز لیگ کے لیڈران بھلا کیسے پنجاب حکومت کے بے پناہ وسائل اور ڈپٹی کمشنرز اور پولیس افسران کے تعاون کے بغیر راولپنڈی تک پہنچ سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ نواز لیگ کے راہنما اس بات پر ہنس رہے ہوں کہ عمران کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ اس طرح کے گرمی کے موسم میں جب لانگ مارچ کرنے ہوں تو صوبائی حکومت کے وسائل کتنی آسانی پیدا کر سکتے ہیں۔ اپنی جیب سے کون بیوقوف لانگ مارچ میں شریک ہزاروں لوگوں کے کھانے پلانے اور گاڑیوں کا بندوبست کرے گا۔ سب سے بڑھ کر پولیس اور بیوروکریسی کا تعاون کتنا اہم ہو سکتا ہے۔ لانگ مارچ کی کامیابی کے لیے نواز لیگ کا پنجاب حکومت میں رہنا ضروری ہے۔
مارچ دو ہزار نو میں ججوں کی بحالی کے نام پر کیے گئے لانگ مارچ میں پوری قوم کا جذبہ شامل تھا اور پھر وکلاء کی بہت بڑی تعداد شامل تھی اور سب میڈیا ایک آواز تھا کہ ججوں کو بحال ہونا چاہیے۔ اس سے بڑھ کر لوگوں کو پنجاب میں گورنر راج کے خلاف زرداری اور گیلانی کے خلاف غصہ بھی تھا۔ پیپلزپارٹی کے کچھ لوگ بشمول گیلانی بھی چاہتے تھے کہ ججوں کو بحال کر دینے سے کوئی قیامت نہیں آئے گی۔ روکاوٹ زرداری تھے۔
اب نواز لیگ کو لانگ مارچھ کے لیے اپنے ورکروں پر بھروسہ کرنا پڑے گا جو اپوزیشن میں رہتے ہوئے لانگ مارچ کرنے کے عادی نہیں ہیں اور جنرل مشرف کے دس سالہ طویل دور میں وہ ایک بھی لانگ مارچ نہیں کر سکتے تھے۔ اور تو اور نواز شریف خود دس ستمبر دو ہزار سات کو اسلام آباد ائرپورٹ پر اس کا ذاتی تجریہ کر چکے ہیں جب جنرل مشرف دور میں انہوں نے وطن لوٹنے کی کوشش کی تھی اور ائرپورٹ سے ہی انہیں باتھ روم میں بند کرنے کے بعد سعودی عرب بھیج دیا گیا تھا اور ایک بھی نواز لیگ کا ورکر ائرپورٹ نہیں پہنچ سکا تھا۔
بعد میں پتہ چلا کہ نواز لیگ کے اہم لیڈروں نے پولیس کو خود بلا کر گھروں میں بیٹھ کر اپنی گرفتاریاں پیش کی تھیں تاکہ وہ ائرپورٹ نہ پہنچے کا جواز پیش کر سکیں اور پولیس کی مار سے بھی بچ جائیں۔ اس لیے نواز لیگ کوئی ایسی حماقت نہیں کرے گی کہ وہ پنجاب کی حکومت چھوڑ دیں اور پنجاب میں دوبارہ گورنر راج لگ جائے جس پر پیپلز پارٹی کو بھی ماضی کی طرح موردالزام نہیں ٹھہرایا جا سکے گا۔ یقیناً اس صورت میں پیپلز پارٹی طاقت سے انہیں اسلام آباد کی طرف آنے سے روکنے کی کوشش کرے گی۔ نواز لیگ کا ورکر شاید یہ برداشت نہ کر سکے اورلانگ مارچ کا حشر کہیں وہی نہ ہو جو دس ستمبر دو ہزار سات کو اسلام اباد ائرپورٹ پر نواز شریف کا ہوا تھا۔
دوسری طرف نواز لیگ اس لیے بھی اسمبلیوں میں رہنا چاہتی ہے کہ اگر لانگ مارچ سے کوئی نتیجہ نہیں نکلتا تو پھر وہ اپنی بس کیوں مس کریں کہ جب اگلے انتخابات میں نگران حکومت کے قیام کا وقت آئے گا تو بیسویں ترمیم کے تحت وزیراعظم اور قومی اسمبلی میں اپوزییشن لیڈر مل کر نئے وزیراعظم اور دیگر کابینہ ممبران کا فیصلہ کریں گے۔ یوں نواز لیگ کیوں کر اپنے آپ کو اس حق سے محروم کرنا چاہے گی۔ عمران کی پارٹی کیونکہ پارلیمنٹ میں موجود نہیں ہے لہذا عمران کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے جب کہ نواز لیگ نے جو کچھ حاصل کیا ہوا ہے وہ صرف عمران کو لانگ مارچ میں شامل کرانے کے لیے کیوں گنوا بیٹھے؟
تو پھر اگر نواز لیگ اسمبلیوں کے اندر اور باہر سب کچھ حاصل کرنا چاہتی ہے تو پھر عمران خان کیوں اپنے کندھے نواز شریف کو پیش کرے کہ جناب آپ ان پر سوار ہو کر گیلانی کو گرائیں اور اس کا کریڈٹ لے کر وزیراعظم بن جائیں اور عمران اور ان کی پارٹی دو ہزار آٹھ کے انتخابات کی طرح ایک دفعہ پھر اپنے زخم چاٹتی رہے جیسے اے پی ڈی ایم اتحاد کو بائیکاٹ پر راضی کر کے خود نواز لیگ نے چپکے سے پنجاب میں اپنی حکومت بنالی تھی؟
نواز لیگ نے اگر سیاسی جال پھینکا تو عمران نے بھی جوابی وار کر کے نواز لیگ کو خاصی مشکل میں ڈال دیا ہے کیونکہ میڈیا یقیناًیہ پوچھنے میں حق بجانب ہوگا کہ ایک طرف تو نواز شریف اور ان کی پارٹی گیلانی کو وزیراعظم نہیں مانتے لیکن وہ پنجاب میں حکومت کر رہے ہیں۔ ان کا سینٹ اور قومی اسمبلی سے بھی استعفیٰ دینے کو جی نہیں چاہتا ہے تو پھر یہ لانگ مارچ کس لیے؟ اگر گیلانی کو گرانا مقصود ہے تو پھر یہ کام پارلیمنٹ کی رکنیت سے استعفیٰ دینے سے بھی ہو سکتا ہے۔ اگر لانگ مارچ سے بھی گیلانی نہ گرے تو پھر کیا ہوگا ؟ لیکن اس پارلیمنٹ کی کیا توقیر رہے گی جس میں نواز لیگ کے اسی سے زیادہ ارکان نہیں بیٹھے ہوں گے اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کی طرح صرف حکومت ہی ایوان میں موجود ہوگئی اور کوئی اپوزیشن کا وجود نہ ہوگا ؟
عمران کی سیاسی طور پر میچور شرائط نے یقیناًنواز لیگ کو کافی مایوس کیا ہوگا کیونکہ نواز لیگ اس لیے اسمبلیوں سے باہر نہیں نکلے گی کیونکہ ایک طرف کھائی ہے تو دوسری طرف پہاڑ۔ نواز لیگ کو اگر اسمبلیوں سے باہر عمران کا خوف سر پر سوار ہے تو دوسری طرف اسمبلی کے اندر ایک اور جن بھی نواز شریف کو ڈرا رہا ہوگا اور اس سیاسی جن کا نام ہے مولانا فضل الرحمن۔ ۔۔۔ کیا نواز لیگ چاہے گی کہ وہ پنجاب کے بعد قومی اسمبلی سے مستعفیٰ ہوں اور اپنے قبلہ مولانا فضل الرحمن فوری طور پر اپوزیشن لیڈر بن کر ایک سال بعد بیسویں ترمیم کی روشنی میں گیلانی اور زرداری کے ساتھ ایوان صدر میں ملک میں بیٹھ کر اپنے مشہور زمانہ قہقوں کی گونج میں دو ہزار تیرہ میں ہونے والے انتخابات کے لیے اپنی مرضی کے نئے نگران حکومت کے وزیراعظم کا نام فائنل کر رہے ہوں
0 comments:
Post a Comment